Thursday, June 12, 2014

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا زہد و تقویٰ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی راتیں بھی ان کے دنوں کے مانند روشن تھیں، وہ اپنی راتیں عبادت اور دن روزے رکھنے میں گذارتیں ان کا طرز زندگی بالکل صاف شفاف تھا۔ وہ زہدوتقویٰ کی زندگی پر مکمل طور پر عمل پیرا تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کے قریب ترین شاگردوں میں سے ایک، قاسم، جو بعد میں تابعین کے سربراہ بھی بنے، فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  عیدین کو چھوڑ کر بقیہ پورا سال روزے سے رہا کرتیں۔((46
وہ اپنا ہر دن توبہ استغفار میں گزارتیں اور اپنے گذرے ہوئے دن کو احساس ندامت کے ساتھ یاد رکھتیں۔ ان کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال تھی اور وہ تہہ دل سے یقین رکھتی تھیں کہ ہر گزرتے دن کے  ساتھ بہتری کے مدارج طے کرنے کے لیے ملنے والے مواقع سے استفادہ حاصل کرنا ضروری ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کا یہ بھی خیال تھا کہ عبادت کے ہر ایک رکن کو مستقل طورپر اپنائے رکھنا ان کے لیے فرض ہے، وہ استقامت کا پیکر تھیں اور کوئی ایسا نہ تھا کہ جو انہیں اس سب سے دور کرپاتا۔ جب کسی کو آپ رضی اللہ عنہا کی استقامت پر تعجب ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے فرمایا:
"اگر میرے والد بھی قبر سے اٹھ کھڑے ہوں اور مجھے کوئی ایسی نفلی عبادت ترک کرنے کو کہیں کہ جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دوران شروع کی تھی، تو میں اسے کبھی بھی ترک نہ کروں گی"۔(47)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  بمشکل اپنی ضروریات پوری کرپاتی تھیں مگر اس کے باوجود ان کے پاس جو کچھ ہوتا وہ ضرورتمندوں کو دے دیا کرتی تھیں۔ ایک دن حضرت جابر رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہا سے ملنے کے لیے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ایک بوسیدہ لباس زیب تن کر رکھا تھا، جس پر جابجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"آپ رضی اللہ عنہا کوئی دوسرا لباس کیوں زیب تن نہیں کرتیں؟"
تاہم ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مانند نہیں سوچتی تھیں انہوں نے فرمایا:
"ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم مجھ سے دوبارہ ملنے کی خواہش رکھتی ہو تو اپنا لباس اس وقت تک تبدیل نہ کرنا جب تک وہ دوبارہ استعمال کے قابل نہ رہے اور اپنی ضروریات کے متعلق ایک ماہ قبل ہی سوچنا شروع نہ کردینا، مجھے بتاؤ کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے حکم کو ان سے دوبارہ ملنے سے قبل تبدیل کرسکتی ہوں"؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  جب بھی کسی غریب اور ضرورتمند کو مشکل حالت میں دیکھتیں تو جو کچھ آپ رضی اللہ عنہا کے پاس ہوتا وہ بھیج دیا کرتیں یا پھر اپنی کوئی چیز بازار میں فروخت کرکے رقم ان لوگوں کو بھجوا دیتیں۔
لوگوں کی ضروریات پوری کرتے وقت آپ رضی اللہ عنہا کبھی اپنی ضروریات کے متعلق نہ سوچتیں، مگر ہمیشہ یہ کوشش کرتیں کہ دوسروں کی مشکلات کم کی جاسکین۔ ایک دن انہوں نے اپنے پاس موجود ہر چیز غریبوں کو دے دی اور اپنے پاس اس دن کے لیے کوئی رقم باقی نہ رہی۔ اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہا نے خیرات کا سلسلہ ترک نہ کیا اور بلاتردد اپنی کچھ چیزیں بازار میں فروخت کرکے رقم خیرات میں دے دی۔ شام کے وقت جب روزہ افطار کرنے کا وقت آیا تو آپ رضی اللہ عنہا کے پاس صرف جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا کھانے کے لیے بچا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کا رضاکارانہ عجزوانکسار ایک غیرمعمولی زندگی کا عکاس تھا کہ جو ان کے ارد گرد لوگوں کے لیے مشعلِ راہ تھی اور آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی پہلے کی مانند زندگی گزارنا جاری رکھا، حقیقی خود اختیاری ایسے شخص کی ہوتی ہے کہ جس کے پاس طاقت اور بے شمار مواقع ہوں۔ یہی وہ خوداختیاری تھی کہ جس کے باعث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے اپنی زندگی کے آخری سانس تک اسی عجزوانکسار کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا کہ جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گذاری تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  جیسی بھی زندگی کی خواہش کرتیں وہ اسے گذار سکتی تھیں مگر آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب کیا اور اس انتخاب نے ان کی ایک عاجزانہ زندگی گذارنے کی جانب رہنمائی کی بالکل ویسے ہی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زندگی تھی۔
یقیناً یہ ایک رضاکارانہ انتخاب تھا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین لوگوں میں سے ایک تھیں تاہم ان کی قربت دوسروں سے مختلف تھی۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں کی پیروی جاری رکھی اگرچہ آپ رضی اللہ عنہا کے پاس بہت سے دیگر مواقع بھی موجود تھے، مگر آپ رضی اللہ عنہا نے وہ طرزِ زندگی ترک نہ کیا جس کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا نے ایک شاندار زندگی گزاری تھی۔
آپ رضی اللہ عنہا کی حقیقی دولت، آپ رضی اللہ عنہا کا زہد وتقویٰ تھا۔